جب کبھی میَں سفر سے لوٹا ہوں اپنی حدِّ نظر سے لوٹا ہوں کوئی منظر نہیں نگاہوں میں کیسے اندھے نگر سے لوٹا ہوں بول آوارگی! کدھر جاؤں اب تو حدِّ نظر سے لوٹا ہوں سرخ آنکھیں ہیں، پاؤں بوجھل ہیں کس طرف سے، کدھر سے لوٹا ہوں جس پہ کوئی کبھی گیا ہی نہیں میں اسی رہگزر سے لوٹا ہوں اختتامِ غزل ہوا یاؔور وادی ِٔ صد ہنر سے لوٹا ہوں 😍😍