ہم جب بھی قاصد کو روانہ کرتے ہیں۔تو دل کے لہو سےبہت سی چاہت ، محبت کے پھول تحفے میں بھیجتے ہیں۔ دل کی اک انجان سی حالت ہوتی ہے۔دل اور نگاہ محو انتظار ہوتے ہیں۔کہ آج پھولوں کے عوض میری محبت کی خوشبو لوٹ آئے گی۔لیکن وہاں تو دل کو مِسل کر پھینک دیا جاتا ہے ۔ اورصدا خار ہی پلٹ کر آتے دیکھے ہیں۔قاصد جب بھی لوٹتا ہے تو اسکے ہاتھ خالی ہوتے ہیں۔ مگر نگاہوں کے تھال میں ہمیشہ جوابی نفرت ، دکھ ، درد کا طوفان، آنکھوں سے سمندر کی صورت میں ہمارے دل کی دنیا کو اپنی لہروں میں بہا کر اجاڑ دیتا ہے۔ جب قاصد میرے اجڑنے ، بکھرنے کی حالت دیکھتا ہے ۔تو مجھ سے گزارش کرتا ہے کہ خداراہ اسے چھوڑ دو بُھلا دو۔ایسے خواب مت دیکھو جو کبھی تعبیر نہ پا سکیں ۔ ایسی راہوں پہ چلنے کی زحمت نہ کرو جن کی کوئ منزل نہ ہو ۔مگر سب سننے ، دیکھنے اور سہنے کے باوجود دل اور محبت کا حال ،حال ہی رہنے کو پسند کرتا ہے ۔ماضی بننے کو تیار نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ میری اور میرے دل کی کل کائنات تو وہی شخص ہے۔جو اس کی بےرخی ، بے قدری ، سنگدلی ، ستم گری ،حقارت ، اور بہت کچھ سہنے کے باوجود اسی کے نام سے دھڑکتا ہے۔ اس کی یادیں اس کی سوچیں اس دل ناکام کی ساری دولت ہیں ۔ اسی کے ساتھ یہ دل جینا چاہتا ہے۔ اسی کے ساتھ مرنا چاہتا ہے ۔ (جاری )