Nojoto: Largest Storytelling Platform

کاغذ کی کشی تحریر شفیق قریشی کراچی جب سے دنی

کاغذ کی کشی 

	تحریر شفیق قریشی کراچی 

	جب سے دنیا کا معاشی نظام چلا اور بارٹر سسٹم ختم ہوا،  دھاٹی سکے کم ہوئے تو ہمارے ساتھ ایک چیز نے بہت لمبا سفر تہہ کیا،  کاغذ 	کی کشی۔۔۔میں یہاں نو ٹ یعنی کاغذی کرنسی کو کاغذ کی کشتی سے تشبیح دے رہا ہوں کیوں کہ یہ ہی وہ کشتی ہے جس کے سب سوار 	ہیں،  جس میں بیٹھ کر ہم اپنا پیٹ بھی بھرتے ہیں،  اپنے معاشی مسائل بھی حل کرتے ہیں،  جس میں بیٹھ کو لو ایوانوں بھی پہنچتے 	ہیں اور جس کی سواری انسا ن کو ڈبو بھی دیتی ہے۔   اسکے کئی نام ہیں روپیہ،  پیسہ،  رقم،  روکڑا،  پیٹی،  کھوکھا،  کرنسی،  منی،   	مگر کام ایک ہی ہے خرید و فروخت،  کہیں گندوم کی خرید و فروخت تو کہیں چاول کی،  کہیں گاڑی کی تو کہیں جہازوں کی،  		کہیں کوٹھیوں  کی تو کہیں جھگیوں کی، کوئی اسکے عوض  سونا  چاندی اور زیورات  اور جواہرات خریدتا ہے تو کوئی اس سے دوا 		خریدٹا ہے،  کو ئی اس سے متقبل میں رہنے کے لیے پلاٹ  خریدتا ہے تو کوئی اپنے لیئے قبر کی جگہ مگر لیتا اسی کاغذ کی کشتی کا سہارا 	ہے۔  

	ہر جگہ اس کاغذ کی کشتی کی ڈیمانڈ ہے،  ایک وقت تھا جب لوگ اس کاغذ کے نوٹ کو صرف اپنی ضرورتوں کے لیئے ہی استعمال کیا 	کرتے تھے،  اس کاغذ کے ٹکرے سے،  پیار محبت،  رشتے ناطے،  نہیں جوڑتے تھے،  امیری اور غریبی کا فرق ضرور تھا لیکن 	لالچ اور حرض کی جنگ نہیں چھڑتی تھی  باپ بیٹے اور بیٹا ماں کو  اس پیسے کی وجہ سے ذلیل نہیں کرتا تھا،  شوہر بیوی اور بیوی شو ہر کو 	اس پیسے اور جائیداد کے لیئے قتل نہیں کرتی تھی۔  اس کاغذ کے نوٹ نے انسان کو اتنا زیادہ اندھا کر دیا ہے کہ چھوٹے بڑے،  	سگے،  سوتیلے،  پیار محبت ہر چیز میں فرق ختم کر دیا ہے انسان نے،  باپ یا ما ں زندہ کیوں نہ ہوں جائیداد میں حصہ چاہئے ہے،  	اب لوگ اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے رشتے بھی کاغذ کے نوٹوں سے بھرا گھر دیکھ کر ہی کرتے ہیں،  چاہے انھوں نے دولت کسی بھی 	ذرایع سے کمائی ہو،  مگر وہ چاہتے ہیں کہ انکی بیٹی یا بیٹے کا رشتہ جہاں بھی ہو وہ لوگ غریب نہ ہوں انکے پاس پیسے کی ریل پیل ہو،  	لڑکی یا لڑکا چاہے کالا ہو یا پیلا،  جاہل ہو یا گنوار،  بس اکاؤنٹ میں پیسہ کتنا ہے،  جائیداد کتنی ہے،  حسب نسب چاہے کوئی بھی،  	ذات برادری کوئی بھی ہو بس پیسہ ہو رشتے اپنے آپ ہی بن جائیں گے،  یہ ہے لالچ اور حرص کی جنگ،  اور  اسکا مطلب یہ ہوا 	کے جو لوگ غریب ہیں وہ نہ تو کسی کے رشتہ دار ہیں نہ انکا کوئی خون کا رشتہ ہے نہ ہی کوئی بھائی چارہ۔  لوگ اب اچھے برے ذرایع 	سے پیسہ کما کر اتنے خود غرض ہو گئے ہیں کہ جہاں موقع ملتا ہے اپنے چھوٹے رشتہ دار یا دوست کو باتیں سنا دیتے ہیں یہاں تک 	کے رشتہ دار بڑی بڑی دعوتیں کر کے بھری محفل میں ذلیل کر دیتے ہیں۔  یہ باتیں میں کوئی ہواؤں میں نہیں کرتا ایک تجربے سے 	گذرتا ہوں تب آپ سب کے گوش ِ گذار کرتا ہوں،  ہمارے بھی کچھ ایسے ہی ہمدرد تھے جو کچھ برسوں پہلے ہم سے بہت غریب 


	تھے آج وہ ہم سے اوپر چلے گئے کیسے گئے کہاں سے گئے یہ سب میں اچھی طرح جانتا ہو ں اور سب جانتے ہیں مگر اب وہ جائیداد 	اور دولت والے ہو گئے لحاظہ اب وہ ہمارے گھرانوں میں رشتے ناطے نہیں جوڑیں گے کیوں کے ہمارے پاس یہ کاغذ کے ٹکرے 	نہیں زیادہ نہیں ہیں،  ہمارے پاس جائیدا د نہیں ہے ہمارے پاس وہ شارٹ کٹس نہیں ہیں جس کی بنا پر وہ ہم سے رشتے جوڑیں،  	اور وہیں پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ آئی کے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خاندانوں کو آپس میں ملنے نہیں دیا،  یہ وہ خود غرض لو گ 	ہیں جنہیں اپنی آخرت کا پتہ نہیں کے ساتھ کیا لے کر جائیں گے۔  مگر ہم صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے ہم وہ غیر ضروری کام نہیں 	کر سکتے پیسہ کمانے کے لیئے،  ہم غریب ہیں ہی اچھے ہیں کم از کم حلال کی کمائی تو کھاتے ہیں،  اچھا کھاتے ہیں پیسے اور کاغذ 	کے ٹکروں کو جمع کر کے اپنی جان پر ظلم نہیں کرتے۔  کسی زمینیں نہیں ہتیاتے،  الیکشن میں نہیں کھڑے ہوتے،  جسلوں میں اور 	جاگیرداروں کے آگے نہیں ناچتے،  انکے تلوے نہیں چاٹتتے ہم شان سے جیتے ہیں کیوں کے ہم اللہ پاک سے ڈرتے ہیں اور اپنے 	رشتوں کو دولت اور جائیدا د سے نہیں جوڑتے،  میں لعنت بھیجتا ہوں ایسے لوگوں پر ایسی اولادوں پر اور ایسے رشتہ داروں پر جو پیسے 	اور جائیداد سے رشتے منسلک کرتے ہیں دار اصل انکی نظر میں انسانیت کوئی چیز ہی نہیں مگر دھوکے میں ہیں یہ پیسہ اور جائیداد انکو 	سانپ اور بچھو بن کر ڈسے گی۔  یہ بناوٹی رشتہ دار اور دوست ایسے ملے ہیں جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں مگر یہ اندر سے بہت گہرے 	ہیں،  بہو دولت اور زیور لے کر نہ جائے تو اسکو تعنے دے دے کر مار دیتے ہیں،  بہو فرینچر،  فریج،  گاڑی یا موٹر سائیکل نہ لائے 	تو تیل ڈال کر آگ لگا دیتے ہیں، پھر کہاں کی محبت کون سی محبت،  یہ سب مطلبی اور خود غرض لوگ دولت کی لالچ میں بھو ل چکے ہیں 	سب کچھ۔  یہ کیسی کاغذ کی کشتی ہے جس میں بیٹھ کر سب الگ الگ سوچ رکھتے ہیں۔

©Schafeek Kureshi
  #Kagaz ki kashti

#kagaz ki kashti #زندگی

72 Views