کچھ ایسے مجھے سایہء دیوار پکارے! جیسے کسی بیمار کو بیمار پکارے!! میں دیکھتا رہتا ہوں ترے ہونٹ کی جانب! میں سوچتا رہتا ہوں تو اک بار پکارے وہ ایسے پکارے کہ سمٹ جائے ہر اک شے!! وہ ایسے پکارے کہ فسوں کار پکارے! سب ہنستے ہوئے لوگوں کے منہ پر ہو طمانچہ وہ شخص مجھے ایسے لگاتار پکارے ہر شخص مجھے تیرے عزاداروں میں دیکھے ہر شخص مجھے تیرا طرفدار پکارے آئینہ مجھے دیکھ کے ہنس دے مرے اوپر دروازہ مجھے دیکھ کے دیوار پکارے!! اس پر تری وحشت کا اثر ہے سو یہ دانش!! دیوانہ ترے دشت کو گلزار پکارے Dr zia kuch esay pokary