شہر میں نئے ہیں، ہمیں ایسے نہ ستا ابھی چلے جائیں گے آنکھیں نہ دکھا عزت دار لوگ ہیں، ذلت میں نہیں جیتے ہمارا سر اتار دے..... پر تہمت نہ لگا اس دیوانے پر منصور کا سایہ لگتا ہے اسکی بات سمجھ، اسے سولی نہ چڑھا یہ کڑیل بالک ابھی روتے روتے سویا ہے دل کھلونا ٹوٹا اس کا، اس کو نہ جگا مجھے آسماں سے سِکھا کر اتارا گیا سب سیکھ چکا ہوں تُو مزید نہ سکھا غلطی کی میں نے، سو کی تھی آدم نے پر حرفِ کُن ہوں میں، مجھے نہ مٹا بہروں کی بستی ہے کوئی نہیں سنتا چپ سادھ لے شاکی کوئی غزل نہ سنا #منیب شاکی# #غزل