اتنے دائیروں کے اندر مجھے ہے اختیار ملا. پاگل فطرت کے گھوڑے پر مقدر سوار ملا. خوشیاں گنی چنی کب تک مناتا پھرتا میں. غموں کو منانے کا مجھے نا کوئی تہوار ملا. جتنے رہنما ملے اک چیز سب میں یکساں تھی. جذبے تھے مردہ انکے اور دل بھی بیمار ملا. امن پرندہ روتا ہوا کل رات سرہانے آ بیٹھا. پیروکارانِ امن کے گھر سے جب ہتھیار ملا. مخلصی سینے میں لیکے بھیک محبت جب مانگی. ہر در نے ٹہکرا کر پہینکا ہر شخص سے انکار ملا. درد درندہ ڈرتا کیوں ہے, نظروں سے نظریں ملا. تُو عمر ساری یاد رکھیگا تھا کیسا شاہسوار ملا. اشک قطروں سے فقط چمکائے لفظ تُونے ریاض. رونقِ خط بڑھا تھوڑی, خونِ جگر تو یار مِلا. #riazwrites