سب سے معذرت کہاجاتا ہے کہ زمانہ قدیم میں کسی رنڈی کا رقص(مجرا) دیکھنے کے لیے مخصوص جگہ یعنی کوٹھے کا رخ کیا جاتا تھا۔ تو وہ رنڈی اہل تماشہ کو اپنی دلکش اداؤں اور جسم کو برہنہ حالت میں پیش کر کے داد وصول کرتی تھی۔ اگر اس رنڈی یعنی طوائف سے پوچھا جاتا کہ وہ یہ کام کیوں کرتی ہے تو سو میں سے 99.99 فیصد یہ جواب ہوتا کہ مجبوری ہے میں مجبور ہوں شوق سے نہیں کرتی۔ وہ مجبوری اگر معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی تو ہر کسی کی ایک اپنی دل سوز کہانی ہوتی، کسی کے سر پہ سایہ نا رہا تو کسی کو شوہر غیرت والا نا ملا تو کسی کے سر پر ماں باب کا سایہ نہ رہا۔ یہ ساری باتیں کرنے کا مقصد یہ کہ ان طوائفوں کی مجبوریاں کسی نہ کسی طرح سمجھ میں آتیں تھیں مگر آج کی طوائف کو کیا ہو گیا ہے ؟ میں بات کر رہا ہوں ٹک ٹاک والے رنڈی خانے کی جی ہاں بہت سارے لوگوں کو میری باتیں نا گوار گزریں گی مگر وہ باتیں کرنی بھی ہیں۔ دیکھتا ہوں کہ انتہائی مختصر لباس میں ملبوس یہ بنت حوا اور نام کی مسلمان دوشیزہ اہل زمانہ کو اپنی دلکش اداؤں، ٹائیٹ جینز، چستی پاجامے پہن کر پچھواڑے نکال کر اور اوپر اگر بس چلے تو شرٹ بھی اتار دیں۔ ٹھمک ٹھمک کر اہل زمانہ کے سامنے خود کو پیش کرتی ہے اور داد کی منتظر ہوتی ہے۔ کیا یہ سب ان کوٹھوں کی پیداوار ہیں ؟ کیا ان کے سر پہ بھی کسی کا سایہ نہیں؟ اپنی رائے سے آگاہ کیجئے۔ شکریہ۔۔۔🤔😭😭 سمجھ نہیں آتا ان کے بھائی ان کے والدین اور ان کے شوہر بیغرت ہیں یا ان کو نہیں پتا اسلام کیا کہتا ہے ۔۔۔۔😭