White درد سے یادوں سے اشکوں سے شناسائی ہے کتنا آباد مرا گوشۂ تنہائی ہے خار تو خار ہیں، کچھ گل بھی خفا ہیں مجھ سے میں نے کانٹوں سے الجھنے کی سزا پائی ہے میرے پیچھے تو ہے ہر آن یہ خلقت کا ہجوم اب خدا جانے یہ عزت ہے کہ رسوائی ہے ہاتھ نیکی سے تہی، سر پہ گناہوں کے پہاڑ سب سہی، دل مگر اک تیرا ہی شیدائی ہے پھونک کر ساری تمناؤں کے دفتر، یہ دل اب تو بس تیری تمنا کا تمنائی ہے ان کا دیدار تقی کیسا قیامت ہوگا جب فقط انکے تصور میں یہ رعنائی ہے ©व@हिD️ #sad_shayari कथायति माही मुन्तज़िर