تیرے اک اک میسج کو پڑھ چکی زبر کو زیر، زیر کو پیش کر چکی تیرے جانے کے لمحے سے آنے تک گھڑی کے وقت کو شمار کر چکی چند باتیں ھیں تیرے تلخ لہجے کی ان باتوں کو میں 100 بار پڑھ چکی تیرے آن لائن ھونے کے انتظار میں ھر بار میں آنکھیں پتھر کر چکی تو کیا جانے انتظار کے درد کی قیمت میں انتظار میں وقت سستا کر چکی بازی پلٹ گئی اب تو کر انتظار صرف اک جسم ھے باقی میں مر چکی شہزادی