آخری خط شرط سروں پہ نہیں ٹھانی جا سکتی سمندر کی بات نہیں مانی جا سکتی میرے صبر کا کمال ظرف دیکھ اب تری خاک نہیں چھانی جا سکتی کیا دیا مجھ کو جو نہ دیا سب کو کہوں کچھ تو کہتے ہو سمجھ ہی نہیں تقاضہ تو ہے ترک دنیا کا مجھ سے میرے لیے ترک کیا تو کچھ بھی نہیں کیوں تردد کریں اس کے پہلو کا جب پہلو میں سکوں ہی نہیں کیوں تڑپیں اس دلِ کافر کو جس دل میں ہمارا جنوں ہی نہیں