دشت و ویراں میں کہیں کٹیا بسائے ہوئے لوگ دیکھ کس حال میں رہتے ہیں ستائے ہوئے لوگ بارشیں یوں بھی سبھی زخم ہرے کرنے لگیں یاد آنے لگے آنکھوں سے بہائے ہوئے لوگ منتظر اب یہاں خواہش ہے نہ میّت ہے کوئی اس قدر دیر سے لوٹے ہیں بلائے ہوئے لوگ