ضمیر اپنا جو،،،،،، بازار میں نہیں آتا ذرا سا جھول بھی کردار میں نہیں آتا محبتوں کا علاقہ،، بہت کشادہ ہے یہ دائرہ کسی پرکار میں نہیں آتا ہمارا نام بھی چلتا ہے فن شناسوں میں یہ اور بات ہے کہ،،،، اخبار میں نہیں آتا عجیب سرد رویہ ہے،،، حسن والوں کا غضب تو یہ ہے کہ انکار میں نہیں آتا ہمارے گاؤں کے میلے کا جو مزہ ہے "میاں" تمہارے شہر کے،،،،،،،، بازار میں نہیں آتا امیر شہر کو مزمل، یہی شکایت ہے ہمارا سر کسی دستار میں نہیں آتا ا زقلم مزمل پردیسی