سڑک کے کنارے بیٹھی وہ بچی نہیں بڑی تھی چہرے پہ اس کے فکر کی پڑچھائی پڑی تھی غور سے دیکھا تو آنکھ الجھن سے بھری تھی ناجانے اس ننھی جان کو کیسی فکر پڑی تھی وہ دو آنکھوں والی نہیں ایک آنکھ والی لڑکی تھی یعنی یہ محرومی بھی اس کے حصے آ چکی تھی میرے ہاتھ کا اشارہ پا کر وہ آنکھ ٹمٹما اٹھی تھی بھاگ کر وہ ننھی جان میرے پاس آ چکی تھی دس روپے کے نام پر اس کی آنکھ چمک اٹھی تھی جس میں ساری دنیا کی روشنی ماند پڑ چکی تھی اک ٹرانس میں میں کچھ پیسے اسے تھما چکی تھی مجھے دعائیں دیتی شکر رب کرتی وہ جا چکی تھی میری نگاہ گاڑی بنگلے اور اپنے اعضا جانب اٹھی تھی نہ شکر کیا ادا نہ دل میں کوئی خوشی تھی ندامت اور شرمندگی کے گھڑے میں میں گر چکی تھی یعنی میں ناشکری کی انتہا کو پہنچ چکی تھی مون💞