شدت سے تمہیں چاہتے ہیں اسی شدت پر حیران ہوئے بیٹھے ہیں تیری تو روز محفلیں سجتی ہیں تنہا ہم ہی ویران بیٹھے ہیں حیرت ہے کہ اتنے بے مول ہیں ہم تیری بے رخی کا سامان بنے بیٹھے ہیں چھوڑو کیا گلے ، کیا شکوے کرنے وہ کونسا سننے کو تیار بیٹھے ہیں #حسرت